Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

   پری نماز عشاء کے بعد وظائف پڑھ رہی تھی، معاً اس کو دادی کے کمرے سے بہت عجیب سی آوازیں آ رہی تھیں وہ جو ان کے کمرے سے ملحق ٹیرس پر موجود تھی۔
اس نے آہستگی سے دروازے کی درز سے جھانک کر اندر دیکھا اور اندر کا منظر اس کے ہوش اڑانے کیلئے کافی تھا۔
دادی جان بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کے گھٹنوں پر سر رکھے طغرل زار و قطار رو رہا تھا۔
طغرل جیسے مضبوط اعصاب بندے کو روتا دیکھ کر وہ شاکڈ رہ گئی۔
”یا اللہ خیر!“ اس نے بری طرح دھڑ دھڑ کرتے دل کے ساتھ دعا کی کیونکہ اس جیسے بندے کا رونا اور وہ بھی اس طرح کوئی معمولی بات تو نہ تھی۔
”میں نے برا نہیں مانا طغرل! میں بھلا برا کیوں مانوں گی مذنہ کے انکار کا ، وہ ماں ہے تمہاری۔ مجھ سے زیادہ تم پر اس کا حق ہے، وہ تمہارے لیے اچھا ہی فیصلہ کرے گی۔
“ دادی جان اس کے گھنے بالوں میں انگلیاں پھیرتی ہوئی بولیں۔
”مما سے زیادہ حق آپ کا ہے دادو! وہ صرف ہماری ماں ہیں جب کہ آپ پپا کی بھی ماں ہیں، آپ کا ہم پر زیادہ حق ہے۔ کوئی بھی کام کرنے کیلئے آپ کو کسی سے بھی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، جو آپ چاہتی ہیں وہ کریں۔“ اس کا وجیہہ چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔
میں تو اپنی من مانی کرتی رہی ہوں بیٹا! لیکن من مانی کرنے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے۔
اب عمر نہیں ہے میری پھر میں قسم کھا کر کہتی ہوں میں نے مذنہ کے پری کو بہو بنانے سے انکار پر برا نہیں مانا ہے۔ ہاں کچھ دن افسوس ضرور رہا تھا پھر میں سمجھ گئی تھی تمہارا اور پری کا جوڑا ہے ہی نہیں اگر پری تمہاری تقدیر میں ہوتی تو بات بن جاتی۔“
”میں تقدیر کو نہیں مانتا دادو! تدبیر سے تقدیر بدلی بھی جا سکتی ہے، ناممکن کو ممکن بنانا آسان ہے اس دور میں پری کو اپنانے کو تیار ہوں، مجھے مما کی پروا نہیں ہے۔
“ وہ ان کے ہاتھ چوم کر مضبوط لہجے میں بولا۔
دوسری طرف پری اپنا نام و ذکر وہ بھی اس انداز میں سن کر بھر بھری مٹی کی مانند بیٹھتی چلی گئی۔
”گستاخ مت بنو طغرل! اپنی ماں کیلئے اس انداز میں بات کرنا تم کو زیب نہیں دیتا۔“ وہ سخت لہجے میں گویا ہوئیں۔
”مما نے جو آپ کے ساتھ کیا وہ ان کو زیب دیتا ہے؟“
””تم کیا بات کا بتنگڑ بنا کر بیٹھ گئے ہو، ارے بھئی! میرے دل میں ایک بات آئی وہ میں نے مذنہ سے کہہ دی، بہو کو یہ رشتہ قبول نہیں تو میں کسی بھی اختیاری دباؤ کے بجائے اس کو اسی وقت ختم کر چکی ہوں، مذنہ نے نامعلوم تمہیں کیوں بتا دیا ہے؟ میں نے اسے تاکید کی تھی کسی کے آگے بھی یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
میں نہیں چاہتی بھائیوں کے آپس میں دل خراب ہوں۔“
”آپ کو مجھ سے کہنا چاہئے تھا آپ نے مما سے کیوں کہا؟“
”ارے باؤلا ہوا ہے کیا لڑکے؟ اب تیری شادی کی بات کیا تجھ سے ہی کروں گی، اتنا بھی مجھے بے مول مت کر۔“ اس کو سرزنش کرتے ہوئے وہ آبدیدہ ہو گئیں۔
”میں مانتی ہوں، میری پری کے نصیب سوئے ہوئے ہیں مگر مجھے رب کی ذات سے امید ہے جب اس کے نصیب جاگیں گے تو سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔
”میں آپ سے وعدہ کرتے ہوں دادو!! میں اسے بے حد خوش رکھوں گا، بہت زیادہ خوش۔“ وہ ان کے ہاتھ تھام کر عاجزانہ لہجے میں گویا ہوا۔
”معاف کرنا طغرل! میں نے تم سے بہت محبت کی ہے اور مرتے دم تک کرتی رہوں گی مگر… میرے بچے! میں ایک بار پھر فیاض اور مثنیٰ کی کہانی نہیں دہرانا چاہتی، اللہ تم کو خوش رکھے، تم میری محبت میں یہ فیصلہ کر رہے ہو۔
فیاض تو بہت محبت و چاہت سے مثنیٰ کو بیاہ کر لایا تھا اور کیا حال ہوا اس کی محبت کا؟ آج دونوں علیحدہ گھر بسائے بیٹھے ہیں پھر افسوس کا مقام یہ ہے کہ دونوں خوش نہیں ہیں اور پری جیسا ہیرا بھی مٹی میں رل رہا ہے۔“
”انکل! مثنیٰ آنٹی کو حق نہ دلا سکے مگر میں پری کو حق دلانے کیلئے آخری حد تک جاؤں گا۔“ اس کے سنجیدہ لہجے میں ایک عزم تھا۔
”یہ سب کہنے کی باتیں ہوتی ہیں طغرل! محبت تو چڑھتے دریا کی مانند ہوتی ہے جب دریا اتر جاتا ہے تو تمام تلاطم و سرکشی بھول بیٹھتا ہے، شادی وہ رشتہ ہے جسے سب کی رضا مندی سے طے ہونا چاہئے اس رشتے میں کسی کی بھی ذرا سی ناپسندیدگی و بے رغبتی اس رشتے کو خراب کر دیتی ہیں، پھر یہاں تو تمہاری ماں کی رضا مندی نہیں میں کسی طرح بھی پری کو ایسے گھرانے کی بہو نہیں بننے دوں گی جہاں کوئی اسے ذرا سا بھی آنکھ میں میل لے کر دیکھے، تم بھول جاؤ اس بات کو اس طرح جیسے یہ بات ہوئی ہی نہیں ہے۔
“ ان کا لہجہ حتمی تھا۔ اپنے وائٹ دوپٹے سے انہوں نے اس کا بھیگا چہرہ صاف کیا اور اس کی پیشانی کو چوما۔
”یہ آپ کا آخری فیصلہ ہے دادی جان!“ وہ ان کی طرف دیکھتا ہوا امید بھری آواز سے پوچھ رہا تھا۔
”ہاں! آخری فیصلہ ہے۔“ ان کا لہجہ کپکپا رہا تھا۔
”تھوڑی سی گنجائش نکال لیں دادی جان!“
”نہیں بالکل نہیں، ریت کی دیواروں والا گھروندہ میں تمہیں بنانے کی جازت نہیں دوں گی۔
“ پھر وہ اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر سنجیدگی سے گویا ہوئیں۔
”اپنے دل میں ایک گڑھا کھود اور اس بات کو ہمیشہ کیلئے اس گڑھے میں دفنا دے اور بھول جا کہ ایسی بات کبھی ہوئی تھی ورنہ… تو میرا… مرا منہ دیکھے گا۔“
###
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
”بابا! یہ آپ کہاں جانے کی تیاری کر رہے ہیں؟“
”مسز عابدی نے حیرانی سے کوٹ سوٹ میں نک سک سے تیار شیری کو اپنے ساتھ چلتے دیکھ کر استفسار کیا تھا۔
”آپ کے ساتھ مام!“ وہ ایک اسٹائل سے مسکرا کر گویا ہوا تھا۔
”میرے ساتھ؟ آپ کو معلوم ہے میں کہاں جا رہی ہوں؟“
”یس! میں جانتا ہوں آپ پرستان جا رہی ہیں، جہاں بے حد کیوٹ پریوں کی ملکہ رہتی ہے، یونو کوئین آف فیری۔“
”مائی گاڈ شیری! میں نے کہا تھا نا، وہاں میں آپ کو ساتھ نہیں لے جا سکتی، آپ کیا کریں گے وہاں جا کر؟“ وہ بیٹے کیاس خواہش پر جزبز ہو کر گویا ہوئیں۔
”جو تصویریں آپ لے کر جا رہی ہیں، میں وہاں جا کر ان کو اپنے ہاتھوں سے دینا چاہتا ہوں۔“
”اتنے جوتے پڑیں گے آپ کے جو آپ خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے، فیاض بھائی کی جو مدر ہیں وہ بہت اسٹرک ہیں۔“
”ویل مما! آپ مجھے لے کر تو جائیں میں ان کے بھی اتنے بیوٹی فل فوٹو گرافس بناؤں گا وہ…“
”شٹ اپ شیری!“ وہ بے ساختہ ہنس پڑی تھیں۔
”وہ بے حد سخت مزاج اور روایت پسند خاتون ہیں وہ ان سب باتوں کو پسند نہیں کرتی ہیں ابھی تو مجھے جا کر ان سے ایکسکیوز کرنا پڑے گا آپ کی اس حرکت پر۔“ وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی تھیں۔
”ڈونٹ وری مام! آپ پریشان نہ ہوں وہ کچھ نہیں کہیں گی، میں راضی کر لوں گا ان کو۔“
”پلیز شیری! بات سمجھنے کی کوشش کریں۔“
”اوکے لیکن آپ کو بھی ایک وعدہ کرنا ہوگا؟“ وہ گہرا سانس لیتے ہوئے گویا ہوا۔
”کوئی اوٹ پٹانگ بات نہیں ہو گی۔“
”آپ ان کو ڈنر پر انوائٹ کرکے آئیں اور اس کو اسپیشلی انوائٹ میری طرف سے کیجئے گا۔“
”میں یہ وعدہ نہیں کر سکتی ہوں، سوری!“
”پھر مجھے راستہ اپنے لئے از خود کلیئر کرنا پڑے گا؟“ اس نے ان کی جانب دیکھتے ہوئے ذو معنی لہجے میں کہا۔
”شیری پلیز بی سیریس! آپ کو لڑکیوں کی کمی نہیں ہے، ایک عام سی لڑکی کے پیچھے کیوں خوار ہو رہے ہو؟“
”عام سی لڑکی؟“ وہ متحیر تھا۔
”اس کو میری نگاہ سے دیکھیں، پورے ورلڈ میں اس جیسی لڑکی نہیں ہے۔“ اس کے انداز میں بے خودی تھی۔
شیری کی بہت کوشش کے باوجود بھی مسز عابدی کو اپنے ساتھ لے کر نہیں گئی تھیں اور حسب عادت اپنی بات کو رد کئے جانے پر وہ روم میں بند ہو گیا تھا، موڈ بری طرح آف تھا اس کا، اس نے لاکر سے پری کی تصویر نکالی تھی۔
اس کے ایک ایک نقش کو وہ غور سے دیکھتا رہا، کچھ بڑبڑاتا بھی رہا، پھر اس نے سگریٹ نکالی ایک کے بعد دیگرے کئی سگریٹیں پھونک ڈالیں۔
دل پھر بھی اس کا بے چین ہی رہا تھا اس نے پری کی تمام تصویریں اٹھا کر کوٹ کی جیب میں رکھیں اور کار کی چابی اٹھا کر روم سے نکل آیا تھا۔
”بابا صاحب آپ کہاں جا رہے ہیں!“ ملازم نے اس کی غیر ہوتی حالت کو دیکھ کر خوف زدہ لہجے میں پوچھا۔
”آپ اس حالت میں کار ڈرائیو مت کریں صاحب!“
”شٹ اپ یو نانسینس!“ وہ اسے ڈانٹ کر آگے بڑھ گیا۔
###
فراز صاحب کا سیریس ایکسیڈنٹ ہوا تھا، بھائی نے اسے فوراً سڈنی پہنچنے کو کہا تھا دل تو پہلے ہی اس کا ملال و تاسف کی زد میں تھا۔
اس کے آنسو بھی دادی کو پگھلا نہ سکے تھے کہ وہ پہلے ایک ایسے ہی فیصلے سے چوٹ کھائے بیٹھی تھیں اس نے بے حد کوشش کی دادی کے فیصلے کو سمجھنے کی مگر نامعلوم ایسا کیا تھا کہ وہ ایک گہری خاموشی کی زد میں آ گیا تھا۔
”یہ میں کیا سن رہی ہوں طغرل! تم سڈنی جا رہے ہو؟“ سب سے زیادہ دادی کو ہی فکر ہوئی اس کے جانے کی۔
”جی دادو! کچھ اچانک کام آ گیا ہے میں جلد واپس آؤں گا۔“
”خیریت تو ہے نا؟ تو کہیں ناراض ہو کر تو نہیں جا رہا ہے؟“ اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر گویا ہوئیں۔
”آپ سے ناراض ہو کر کیسے جی سکتا ہوں۔“
”اللہ تمہیں خوش رکھے، کہاں جا رہے ہو تم اس وقت؟“
”آفس جا رہا ہوں، کل کی فلائٹ ہے میری۔
”اچھا جاؤ، اللہ تمہیں اپنی امان میں رکھے، نامعلوم کیوں تم مجھے پریشان دکھائی دے رہے ہو، کوئی بات ہے کیا بیٹا؟“ وہ جس بات کو سب سے چھپا رہا تھا سب کی پریشانی کے خیال سے وہ اماں اس کے چہرے سے بھانپ رہی تھیں۔
”آپ پریشان مت ہوں، بس اچانک بزنس کے سلسلے میں جانا پڑ گیا ہے اس لئے فکر ہو رہی ہے۔“ وہ ان کو تسلی دے کر باہر نکل آیا تھا۔
یہ حقیقت تھی کہ فراز صاحب اس پر بے حد رعب قائم کئے ہوئے تھے اور اس رعب میں وہ محبت و شفقت بھی تھی جو ایک بہترین و ذمہ دار باپ میں موجود ہوتی ہے ان کے سیریس حادثے کی خبر نے اسے سخت بے چین کر ڈالا تھا۔
وہ اسی سوچ میں گم کار ڈرائیو کر رہا تھا معاً دوسرے سائیڈ سے آنے والی کار اس کی کار کی طرف لہراتی ہوئی بڑھی تھی اور دوسرے لمحے وہ کار اس کی کار سے ٹکرا گئی تھی۔
###
یہ جنوں ہے‘ محبت ہے‘ یا میرا پاگل پن
دل میں تیرے خود کو بسانا چاہتی ہوں
رتجگے بہت ہو چکے میرا مقدر
اب راتوں کو تجھے بھی جگانا چاہتی ہوں
طغرل نے برق رفتاری سے کار کو ٹرن دیا تھا جس کے باعث وہ کسی بڑے حادثے سے بچ گیا تھا اور سامنے آنے والی گاڑی بونٹ سے ٹکرا کر رہ گئی تھی۔ طغرل کار سے باہر نکلا تو دوسری کار سے وہ شخص بھی باہر نکلا تھا اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ تھی۔
”آئم سوری برادر!“ وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر معذرت بھرے لہجے میں گویا ہوا۔ طغرل نے اس کی حالت سے اندازہ لگایا کہ وہ ڈرنک کئے ہوئے ہے۔
”ڈرنک کرکے ڈرائیونگ نہیں کرنی چاہئے مسٹر! اس طرح آپ کے ساتھ دوسروں کی زندگی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔“
”جانتا ہوں لیکن مجھے اپنے غصے پر کنٹرول نہیں رہتا۔“
”کیا میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں؟“ اس نے رسٹ واچ دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”نو تھینکس…“ وہ اس سے مصافحہ کرکے اپنی کار کی طرف بڑھتے ہوئے بری طرح لڑکھڑایا تھا، اس دوران اس کی جیب سے ایک لفافہ نکل کر گرا تھا جس سے وہ بے خبر ہی رہا تھا۔
طغرل نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے غیر ارادی نگاہ اس طرف ڈالی تھی جہاں سے وہ کار گزری تھی اس جگہ ایک لفافہ پڑا تھا اس نے چونک کر دوسری جانب دیکھا تو وہ کار ہواؤں کے دوش پر اڑتی ہوئی جا رہی تھی پہلے تو اس نے سوچا اس لفافے کو نہ اٹھائے، نامعلوم کیا تھا اس میں اور وہ کہاں اس اجنبی کو ڈھونڈتا پھرے گا مگر پھر اس کو کچھ اچھا محسوس نہیں ہوا اپنا اس طرح گزر جانا اس نے آگے بڑھ کر وہ لفافہ اٹھایا اور جیب میں بنا دیکھے ڈال کر کار کی طرف بڑھ آیا۔

   1
0 Comments